صنف نازک اور حادثات
ٹریفک کے بہت سے مسائل اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی منگیتر وں اور دوستوں کو مرعوب کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ بہت سے لوگ اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی بیویوں کی ہدایت پر انتہائی سست رفتاری سے گاڑیاں چلاتے ہیں۔۔
اس سادگی بیه...!
ایک محفل میں ایک خاتون کا تعارف ایک صاحب سے کرایا گیا، جو پی ایچ ڈی ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر بھی کہلاتے تھے اور ایک یونی ورسٹی میں پر وفیسر تھے۔ خاتون بڑی ادا سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولیں۔ ” اوہو بھئی ! آپ تو بڑے
قابل آدمی ہیں، سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کو ڈاکٹر کہوں یا پروفیسر ...؟ ارے محترمہ ! جو آپ کا دل چاہے پکار لیجئے۔ “ پروفیسر صاحب فوراً بولے پھر انہوں نے اپنی دانست میں گفتگو کو ذرا بے تکلفانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ بعض لوگ تو مجھے بیوقوف کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔“ و لیکن وہ تو آپ کو بہت اچھی طرح جانتے ہوں گے ... میں بھلا ایسا کس طرح کہہ سکتی ہوں ؟“ خاتون نے سادگی سے
جواب دیا
جائداد
شوہر نے بیوی سے کہا۔ ” تم نے لڑکی سے کہہ دیا کہ اگر اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تو اسے میری جائداد سے کچھ
نہیں ملے گا ؟
بیوی نے جواب دیا۔ ”اس سے کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے لڑکے سے کہہ دیا تھا اور وہ اس دن کے بعد سے گھر
نہیں آیا۔“
انوکھی خواہش
ایک وکیل نے اپنے دوست کو اپنی زندگی کے پر لطف واقعات سناتے ہوئے ایک مقدمے کا ذکر کیا، جس میں ایک عورت نے نان نفقے کی پروانہ کرتے ہوئے کہا۔ ”جناب عالی! مجھے اپنے شوہر سے کچھ نہیں چاہئے۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ میراشوہر مجھے اسی حالت میں چھوڑ دے، جس میں اس نے مجھے پایا تھا۔ “
اور وہ حالت کیا تھی ؟ حج نے پوچھا۔
میں بیوہ تھی۔ عورت سر جھکا کر بولی۔
شوہر کا میسج ..!
بیگم ! مجھے ایک کار نے آفس کے باہر ٹکر مار دی ہے پھر نا مجھے اسپتال لے کر گئی، میرا ایک بازو اور 3 پسلیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ سر پر بھی 9 ٹانکے لگے ہیں اور الٹے پائوں کی ایک انگلی بھی کٹ گئی ہے۔ بیوی کا میسج آیا۔ یہ حنا کون ہے ؟
رفتار قلب
قابوس والی گورگان کا بھتیجا ایک پر اسرار مرض میں مبتلا ہو گیا تھا۔ کسی طبیب کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ شیخ الرئیس بو علی سینا سے اس کو دیکھنے کی درخوست کی گئی۔ بو علی سینا نے بیمار کے معائنے کے بعد ایک ایسے شخص کو بلایا، جو شہر سے واقف تھا۔ اس سے کہا کہ اس شہر کے محلوں کے نام لینا شروع کرے۔
اسی دوران بو علی سینا مریض کی نبض شمار کرتارہا، ایک محلے کے نام پر پہنچ کر بو علی سینا نے کہا کہ اب اس محلے کی گلیوں اور کو چوں کے نام لو... پھر ایک خاص گلی کے نام کے بعد کہا کہ اب اس کو چہ کے رہنے والوں کے نام بتائو۔ ایک خاص اہل خانہ کا جب نام آیا تو کہا کہ اس گھر کے رہنے والوں کے نام بتائے جائیں۔ اس دوران بو علی سینا نبض بھی شمار کرتارہا
اور مریض کے چہرے کے تغیرات پر بھی نظر رکھتا رہا۔
جب ایک خاص نام آیا، جو ایک خاتون کا تھاتو بو علی سینا نے محسوس کیا کہ مریض کے دل کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ یہ مریض اس کے عشق میں گرفتار تھا۔ اس کیفیت کا اظہار عندلیب شادانی کے اس شعر سے ہوتا ہے۔
بے نیازانہ برابر سے گزرنے والے
تیز کچھ قلب کی رفتار ہوئی کہ نہیں ڈاکٹر سید اسلم کی کتاب ” قلب“ سے اقتباس۔
سواسیر
ایک کاہل عورت اپنے کام چور بیٹے سے باتیں کر رہی تھیں۔ وہ بولی۔ ”میں چاہتی ہوں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز آجائے کہ بٹن دبائیں تو میرے بیٹے کا اسکول یونیفارم استری ہو جائے ، بٹن دبایا تو فٹافٹ ناشتہ تیار ہو گیا، بٹن دبایا تو فور آجوتے پالش ہو گئے، بٹن دبائیں تو تم فوراً اسکول کے لیے تیار ہو جائو۔“
بیٹا بولا۔ ”وہ تو ٹھیک ہے ما... لیکن اتنی مرتبہ بٹن دبائے گا کون ..؟
read more
ایک تبصرہ شائع کریں