یقین
وکیل نے چور سے کہا۔ ”اب جب کہ میں نے تمہیں بری کروادیا ہے تو یہ بتاتے جاؤ کہ تم نے چوری کی بھی تھی یا
نہیں ؟
عدالت میں آپ کی بحث سن کر مجھے یقین آگیا تھا کہ میں نے چوری نہیں کی۔ “چور نے جواب دیا۔
خواہشات
انسان کی کچھ خواہشات ایسی ہوتی ہیں، جو اگر پوری نہ ہوں تو انسان عمر بھر ان کا سوگ مناتا رہتا ہے۔ ایسی خواہشیں مکہ جن کی تعمیل کا ایک وقت ہوتا ہے اگر وہ لمحہ گزر جائے تو بہت سے لوگ ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور خزاں رسیدہ پتوں کی مانند زمین میں دھنس جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی خواہشات کو تشنہ تکمیل دیکھ کر خاموش تماشائی بن جاتے
ہیں۔
اف یہ پروفیسر !
پروفیسر صاحب دو پہر سے رات گئے تک ایک صاحب کے گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ آخر کار میزبان بولا۔ ” مجھے کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا لیکن مجھے علی الصباح اٹھ کر اسلام آباد کے لیے فلائٹ پکڑنی ہے۔ آئیے میں آپ کو دروازے تک چھوڑنے چلوں۔“ ”خدا کی پناہ “ پر و فیسر صاحب یکدم گھبرا کر کھڑے ہو گئے۔ ” میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ تم مجھ سے ملنے میرے ہاں
آئے ہو۔“
ہم بھی کسی سے کم نہیں
ایک ڈاکٹر کے پڑوس میں کتے لکھنے والا ہتا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر نے از راہ تفنن اس سے کہا۔ ”آپ تو یہی دعا کرتے ہوں گے کہ کوئی جلدی سے مرے اور آپ کو اس کا کتبہ تیار کرنے کا آرڈر ملے ؟“ مجھے دعا کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ “ کتبے لکھنے والے نے جواب دیا۔
ڈاکٹر نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا واقعی ...؟
”جی ہاں ! جب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص آپ کے زیر علاج ہے تو میں اس کا کتبہ بناناشروع کر دیتا ہوں اور مجھے آج تک مایوسی نہیں ہوئی۔ “کتنے لکھنے والے نے جواب دیا۔
صاف گوئی
ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل صفائی کا لہجہ سخت ہو گیا۔ ” تم کہتے ہو کہ میر اموکل جب تم پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تو اس کے ہاتھ میں ایک ٹوٹی ہوئی بوتل تھی مگر کیا اس وقت تمہارے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں
تھی ؟“ اس نے مدعی سے پوچھا۔ ”ہاں تھی ، مدعی نے جواب دیا۔ اس کی خوب صورت بیوی۔“
تصدیق
ایک مفلوک الحال پر وڈیو سر بڑی مشکلوں سے اپنی فلم مکمل کر رہا تھا۔ ایک روز اسے کسی شخص سے ہیر و کی لڑائی کا منظر فلمبند کرناتھا۔ اس نے سوچا کہ کسی دوسرے شخص کو کاسٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے ہیر وسے کہا۔ وہ سامنے بس اسٹاپ پر جو شخص غالباً اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا ہے، کسی طرح اس سے جھگڑا شروع کر دو، ہم جھگڑے کا منظر فلمبند کر لیں گے۔“
ہیر واس شخص کے قریب پہنچا اور اپنے آپ کو گھونسے اور تھپڑ کھانے کے لیے تیار کرتے ہوئے بولا۔ ” یہ تمہاری بیوی ہے ؟ ایسی منحوس اور چڑیل نما عورت کے ساتھ کوئی ایک لمحے کے لیے بھی کھڑا ہونا پسند نہیں کرے گا۔“ اس شخص کے چہرے پر بجائے ناراضی کے رونق سی آگئی اور وہ بیوی کی طرف مڑتے ہوئے بولا۔ ”دیکھا ! جو بات میں برسوں سے تم سے کہتا آرہا ہوں، اب تو وہ بات دنیا بھی کہنے لگی ہے۔“
ٹھوس ثبوت
تیز رفتاری کے جرم میں ایک صاحب کا چالان ہوا اور انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔انہوں نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا۔ ”جناب عالی! میں تو صرف تیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جارہا تھا۔“
کیا ثبوت ہے اس بات کا ؟ مجسٹریٹ نے دریافت کیا۔“
" جناب والا ! ثبوت کے طور پر صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس وقت میں اپنے سسرال جارہا تھا۔“
read More
takwem online lateefay ,مزاحیہ لطیفے،طنز و مزح،اردو لطیفے ،لطیفے مزاحیہ اردو
ایک تبصرہ شائع کریں