======حسرت ====
ایک کنجوس شاعر نے اپنے ملازم سے کہا۔تمہیں تو شاعری سے بڑی دلچسپی ہے تو پھر چلو اس شعر کا دوسرا مصرعہ بتائو ۔آئی ہے عید روز مسرت لیے ہوئے ۔ملازم نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔بیٹھے ہیں تنخواہ کی حسرت لئے ہوئے۔
==== پہچان ====
ایک لڑکے نے پچاس لڑکیو ں کو قطار میں کھڑا کیا اور ماں سے بولا۔ان میں سے مجھے ایک لڑکی پسند آئی ہے اور وہی آپ کی بہو بنے گی ۔اب اپ بتائیں ان میں سے وہ کون سی ہے؟
ماں نے بغور سب کامشاہدہ کیا اور ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرکے کہا ۔یہ لڑکی تمہیں پسند ہے اور اس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو۔
بیٹا حیران ہوکر بولا ۔بلکل صحیح کہا لیکن اپ کو کیسا پتاچلا کے مجھے یہ لڑکی پسند ہے۔ماں نے کہا کیونکی یہی لڑکی مجھے زہر لگ رہی تھی۔
===علاج===
ایک صاحب نے ماہر نفسیات سے کہا۔میری سب سے بڑی مصیبت میرے خواب ہیں۔میں خواب میں ہمیشہ ایک ہی منظر دیکھتا ہوں کہ لڑکیاں اسکول میں ادھر سے ادھر بھاگتی پھر رہی ہیں ۔کچھ کھیلنے میں مصروف ہوجاتی ہیں اور کچھ باتیں کرنے میں پھر اچانک اسکول کی گھنٹی بجتی ہےاور میری انکھ کھل جاتی ہے۔ماہر نفسیات نے مریض کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو تم چاہتے ہو کے میں اپنے علاج سے تمھیں یہ خواب دیکھنے سے روک دوں ۔
مریض نے کہا جی نہیں میں چاہتا ہوں کے آپ اسکول کی گھنٹی بجوانا بند کردیں ۔
===انداز فیشن ===
آج کا زمانہ بہت زیادہ ماڈرن ہوگیا ہے اور ہر شے کا اندازبدل گیا ہے مگر ہمارے ہاں فیشن پرستی کا جزبہ نوجوانوں میں اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر گیا ہے کہ بیان سے باہر ہے ۔پہلے سر کو ڈھانپنا ضروری تھا مگر اج ضروری ہے تو طریقہ کہ کس طرح ڈھانپا جائے۔
اسکارف کا فیشن ہے جی ہاں اور اسے اوڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے آپ دنبے کی پوش جیسا جوڑا بنانا سیکھیں ۔پھر نہایت ہی بڑے دوپٹے سے مماثل نہایت چھوٹا سا پٹکا لیں اور اس دنبے کی دم یعنٰی اپنے سر پہ ابھرے جوڑے پہ تہہ در تہہ لپیٹ لیں اب اس میں پلیٹ سائز کا گول سا فیتہ لگائیں اب باہر جہاں دل کرے آوارہ گردی کریں اور دل کو تسلی دیں کہ سر ڈھانپا ہوا ہے۔
===ایک کشتی کے سوار ===
مریض نے ڈاکٹر سے کہا جناب میرے اعصاب بلکل جواب دے چکے ہیں ،ذرا سی آہٹ پر چونک پڑتا ہوں ،دروازے کی گھنٹی بجتی ہے تو دل دھڑکنے لگتا ہے رات کو سو نہیں سکتا آخر مجھے کیا بیماری ہے۔تمہاری اور میری بیماری میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ میں بھی شادی شدہ ہوں ۔ڈاکٹر نے جواب دیا۔
===اس سادگی پہ ===
مریض نے کلینک میں داخل ہوکر داکٹر سے شکایت کی آپ نے مجھے جو طاقت کی گولیاں دی تھیں وہ سب میں باقاعدگی سے استعمال کر رہا ہوں اس کے باوجود میری صحت دن بہ دن بگرتی جارہی ہے اور اب میں سخت کمزوری محسوس کر رہا ہوں ۔
داکٹر صاحب نے کہا ہوسکتا ہے تمہاری خوراک صحیع نہ ہو،آج کل کون کون سی غذا لے رہے ہوں ۔مریض حیران وپریشان ہوکر بولا تو کیا ان گولیوں کے علاوہ مجھے کھانا بھی کھانا تھا
ایک تبصرہ شائع کریں